ستارے بانٹتا ہے وہ، ضیاء تقسیم کرتا ہے
سُنا ہے حبس ِموسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے
اُسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں اکثر حنِا تقسیم کرتا ہے
کوئی روکے اُسے جا کر، سراسر یہ ہے پاگل پن
جو بہروں کے محلے میں صدا تقسیم کرتا ہے
اُسی سے مانگ تو، باقی چھوڑ دے سب کو
جو پتھر میں بھی کیڑے کو غذا تقسیم کرتا ہے