کچھ وعدے، قسمیں، یادیں تھیں
کچھ قہقہے تھے، فریادیں تھیں
کچھ آنسو تھے جو بہائے تھے
کچھ دھوکے تھے جو کھائے تھے
کچھ لہجوں کی پرچھائیاں تھیں
کچھ دل کو روگ لگائے تھے
اب پاس ہمارے کچھ بھی نہیں
اب آس کے مارے کچھ بھی نہیں
بس یادوں کی زنجیریں ہیں
کچھ رنگ اُڑی تصویریں ہیں
کچھ لفظ مٹی تحریریں ہیں
اک دل جو دید کا پیاسا ہے
بس یہی میرا اثاثہ ہے