یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے
ہم کو دل نے نہیں* حالات نے نزدیک کیا
دور سے دھوپ میں* ہر شخص شجر لگتا ہے
جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آئیں گے
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے
مجھ سے تو دل بھی محبت میں* نہیں* خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے
وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خواب ہنر لگتا ہے
ایک مدت سے مری ماں* نہیں* سوئی تابش
میں*نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش