میں خزاں میں ہوں تیرا منتظر
مجھے آ کے اپنی بہار دے
مجھے اپنے ہاتھ سے پھول دے
میری زندگی کو سنوار دے
یہ کشمکش سی مجھے کہیں
ہٹا نہ دے میرے مدار سے
میں بکھر رہا ہوں خیالوں میں
مجھے بازؤں کا حصّار دے
مجھے زندگی کی طلب بھی ہے
اور موت کی بھی ہے آرزو
مجھے مضطرب جو کیا ہے اب
مجھے تُو ہی تھوڑا قرار دے
میں نگاہوں میں ہوں، لبوں پہ ہوں
میں دلوں پہ بھی ہوں حکمراں
یہ سب حکومتیں چھین لے
مجھے خود پہ بس اختیار دے —