جسے ہم بے پناہ چاہیں
جسے ہم بے پناہ مانگیں
کہ جس کے نام کی مالا
ہم دھڑکنوں کے ربط میں
سانسوں کی بے ربطی میں الا پیں
وہ جو ہر گام پر خوشبو بکھیرے
اور اس خوشبو میں ہم
رچ جائیں بس جائیں
روح مہک ہو جائے
معطر معطر
وہ جسے ہم بے پناہ چاہیں
جسے ہم بے پناہ مانگیں
جسے پانے کی خواہش میں
اپنے آپ کو ہم
روز توڑیں روز جوڑیں
اور ہر دن کے آخر میں
بہت شدت سے ہم سوچیں
کہ یہ سب آج بھی تو سراب ہی ہے
کل بھی کیا یہ سراب ہوگا؟
ثمن ارشد