معصوم سی محبت کا بس اتناسا فسانہ ہے
کاغذ کی حویلی ہے بارش کا زمانہ ہے
کیا شرطءمحبت ہے، کیا شرطءزمانہ ہے
... آواز بھی زخمی ہے اور وہ گیت بھی گانا ہے
اس پار اترنے کی امید بہت کم ہے
کشتی بھی پرانی ہے ، طوفان بھی آنا ہے
سمجھے یا نہ سمجھے وہ انداز محبت کا
اس شخص کو آنکھوں سے اک شعر سنانا ہے
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے