مٹ گیا جب مٹانے والا ، پھر سلام آیا تو کیا
دِل کی بربادی کے بعد اُن کا پیام آیا تو کیا
چھوٹ گئیں نبضیں ، اُمیدیں دینے والی ہیں جواب
اب اُدھر سے نامہ بر لے کے پیام آیا تو کیا
آج ہی مٹنا تھا اے دِل ! حسرتِ دیدار میں
تُو میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا
کاش اپنی زندگی میں ہم یہ منظر دیکھتے
اب سرِ تُربت کوئی محشر خرام آیا تو کیا
سانس اُکھڑی، آس ٹوٹی ، چھا گیا جب رنگِ یاس
نامہ بر لایا تو کیا ، خط میرے نام آیا تو کیا
مِل گیا وہ خاک میں جس دِل میں تھا ارمانِ دید
اب کوئی خورشید وش بالائے بام آیا تو کیا ؟
دل شاہجہانپوری