چلتے چلتے ۔ ۔ ۔
خوابوں کی مستی سے چُور
آخر یہ پرُشوق مُسافت
چہروں کے جمگھٹ سے دُور
ہم کو ایسی بند گلی میں لے آئی ہے
جس میں چین کے سائے سائے
ارمانوں کے ڈیرے ہیں
لیکن اس کُوچے سے آگے
کوئی راہ نہیں جاتی
چاہو تو ہم لوٹ چلیں
بھیڑ میں ڈُوبے ان رستوں پر
جن پر لمحہ لمحہ ہم کو
کھو جانے کا ڈر رہتا ہے
چاہو تو ہم رک جائیں؟