Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Friday, December 30, 2011

!سنو دسمبر اُسے بلا دو۔۔۔۔۔۔

سنو دسمبر اُسے بلا دو
اب اس سے پہلے کہ سال گزرے
اب اس سے پہلے کہ جان نکلے
وہی ستارہ میری لکیروں میں قید کر دو
اس آخری شب کے آخری پل کوئی بڑا اختتام کر دو
یا زندگی بھی تمام کر دو
!سنو دسمبر اُسے بلا دو۔۔۔۔۔۔

Wednesday, December 28, 2011

سب خونی ہیں .......Dedicated


کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں
یہ جو سرخ جزیرے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر
یہ جو غم کے دھارے ہیں ‘ سب خونی ہیں

ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن
جتنے منظر نامے ہیں ‘ سب خونی ہیں
ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا
شہر کے جتنے رستے ہیں ‘ سب خونی ہیں

ایک وصیت میں نے اُس کے نام لکھی
یہ جو پیار کے ناتے ہیں ‘ سب خونی ہیں
کون یہاں اِس راز کا پردہ چاک کرے
جتنے خون کے رشتے ہیں ‘ سب خونی ہیں

کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

No more tears.......

جو دور افق پر رہتے ہیں
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں ہنستے ہنستے روٹھ گئے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
اک روز میں یونہی شام ڈھلے
بس تنہا تنہا بیٹھا تھا
تب چاند مجھے الجھا سا لگا
اور مجھ سے آخر کہنے لگا
معلوم ہے کچھ تم کو ارشد
وہ لوگ جو میرے اپنے تھے
کیوں آخر مجھ سے روٹھ گئے
میں ہر شب ڈھونڈتا رہتا ہوں
پر مشکل ہے
تڑپاتے ہیں سسکاتے ہیں
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

Tuesday, December 27, 2011

کہاں رہ گئی تُو؟


بہت تیرے آنے کا چرچا سنا ہے
چراغاں ترے راستوں پر کیا ہے
اب آنکھوں میں باقی فقط اِک دِیا ہے
کہ انصاف کا اب تُو ہی آسرا ہے
کہاں رہ گئی تُو اے صُبحِ قیامت
کہاں رہ گئی تُو؟
ترے چاہنے والے سب منتظر ہیں
گرفتارِ رنج و کرب منتظر ہیں
سب اہلِ عجم اور عرب منتظر ہیں
غرض یہ کہ سب با ادب منتظر ہیں
کہاں رہ گئی تُو اے صُبحِ قیامت
کہاں رہ گئی تُو؟
کوئی غم کا مارا، کسی کو خوشی ہے
کہیں ظالموں کو حکومت ملی ہے
کہیں آہِ مظلوم ہے، بے بسی ہے
یہ سب کچھ ہے، بس ایک تیری کمی ہے
مگر آج تک تُو نہیں آ رہی ہے
کہاں رہ گئی تُو اے صُبحِ قیامت
کہاں رہ گئی تُو؟

انکار کے ڈرسے

بہت ہی دور وادیوں سے یہ صدا آئی
کہ جب تم پیار کرنا، تو کبھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے، یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زِندانوں سے پھر آزاد کر دینا
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے افسوس ہوتا ہے
اسے پھر زندگی میں ہر لمحہ افسوس رہتا ہے
کہ اس نے زندگی کے بے بہا انمول تحفہ کو
فقط اندیشہ و افکار پر قربان کر ڈالا
کہ اس نے چند برسوں کی فقط تکلیف کے بدلے
زندگی بھر کے پچھتاوے کا یہ عذاب کیوں پالا
کہ جو ایسا نہیں کرتا
وہ پھر تنہائی کے وسیع و بے رحم صحرا میں
محبت کی فقط دو چار بوندوں کو ترستا ہے
زندگی کے کسی بھی موڑ سے جب وہ گذرتا ہے
کسی اپنے سے دل کی بات کرنے کو مچلتا ہے
وہ جب بیمار ہوتا ہے
کسی ہمدرد، کسی ہمنوا کو یاد کرتا ہے
وہ پھر یہ سوچا کرتا ہے
کوئی ہو جو مجھے پرہیز کی تاکید کرتا ہو
کوئی ہو جو میری تکلیف میں خود بھی تڑپتا ہو
دوا نہ لوں کبھی جو میں، تو پھر ڈانٹا بھی کرتا ہو
کوئی تو ہو، کوئی تو ہو، جو مجھ سے پیار کرتا ہو
انہی سوچوں سے گھبرا کر وہ پھر خود ہی سے لڑتا ہے
میں اس بے رحم دنیا میں اکیلے جی بھی سکتا ہوں
مقدر میں ہیں جو لکھے، وہ آنسو پی بھی سکتا ہوں
مگر وہ ہار جاتا ہے
اور جب وہ ہار جاتا ہے
تو اس کی آنکھ سے چپکے سے اِک آنسو لڑھکتا ہے
اسے پچھتانا پڑتا ہے
سو جب تم پیار کرنا تو، کبھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے، یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زِندانوں سے بھر آزاد کر دینا
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے افسوس ہوتا ہے
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے پچھتانا پڑتا ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گذر گئے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سُو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رَستہ رَستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اِک اِک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اِک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبُور بہت، رُوح بھی چُور و چُور بہت
پیشانی بے نُور بہت، اور لمحے مغرُور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تُو بھی ہم سے دُور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں بہلانے کے ڈھنگ بہت

وہ پگلی۔۔۔۔


دسمبر جب بھی آتا ہے
وہ پگلی
پھر سے بِیتے موسموں کی
تلخیوں کو
یاد کرتی ہے
پرانا کارڈ پڑھتی ہے
کہ جس میں اُس نے
لکھا تھا
میں لوٹوں گا دسمبر میں
نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اِک دن کو
وہ گِن گِن کر بِتاتی ہے
جونہی 15 گزرتی ہے
وہ کچھ کچھ ٹُوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی
پرانی البموں کو کھول کر
ماضی کو بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اُس کو
کہ بِیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں
یونہی دن بِیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی
دوبارہ سے کیلنڈر میں
دسمبر کے مہینے کے صفحے کو موڑ دیتی ہے

رانگ ایگزِٹ - Wrong Exit...

مگر، یہ زندگی کی ہائی وے پہ چلنے والے کب سمجھتے ہیں
غلط ایگزِٹ سے مُڑ جائیں تو منزل چُھوٹ جاتی ہے
مجھے بھی ایک ایگزِٹ پہلے مُڑنے کی اذیّت ہے
مِرے پیشِ نظر بھی ایک اَن دیکھی مسافت ہے
یہاں سے لوٹنا نہ منزل تک پہنچ پانا
مِرے بس میں نہیں شاید
میں پھر بھی جا رہی ہوں ایک اَن دیکھے بیاباں میں
یہاں کوئی پرندہ ہے نہ سایہ ہے نہ پانی ہے
نہ اس میں کوئی ایگزِٹ کی نشانی ہے
مسلسل رائیگانی ہے
یہاں کس کو پکاروں میں
کہ اب اپنی صدا بھی اپنے کانوں میں نہیں آتی
بلا کی سرگرانی ہے
یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں شاید
میں کس سے رَستہ پوچھوں
یہاں تو نَو سو گیارہ کی سہولت بھی نہیں حاصل
میں جس دُنیا کی ہوں، اس کی حکومت بھی نہیں حاصل
بتا قُطبی ستارے! یہ کہاں کی بے ثباتی ہے
نہ مجھ کو چین پڑتا ہے نہ مجھ کو نیند آتی ہے
غلط ایگزِٹ سے مُڑ جائیں، تو منزل چُھوٹ جاتی ہے

ریحانہ قمر

جاہل


بہت سی ڈِگریاں لے کر
ہُنر پہ دَسترس پا کر
نصاب، چاہتِ دل کے
چمکتے لفظ آنکھوں سے
اگر پڑھنے سے قاصِر ہو
تو جاہل ہو

خوابوں کے جزیرے پر


خوابوں کے جزیرے پر
خواہشوں کی دہلیز پر
چاند کتنا پاس تھا ارمانوں کی جھیل میں
ڈُوب رہے تھے جذبے بھی، ارمانوں کی جھیل میں
تنہا میری تنہائی تھی
تنہا میری سوچیں
تنہائی کے عالم میں
دل کے گوشے گوشے میں
پَل پَل اس کو ڈھونڈا ہے
جس کو ڈھونڈتے صدیاں بیتیں
کاش وہ اتنا جان سکے
کہ کوئی کتنا ٹُوٹ چکا ہے
خوابوں کے جزیرے پر

تم ایسی محبت مت کرنا

تم ایسی محبت مت کرنا
مرےخوابوں میں چہرہ دیکھو
اور میری قائل ہو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
مرے لفظوں میں وہ بات سنو
جو بات لہو کی چاہت ہو
پھر اس چاہت میں کھو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
یہ لفظ مرے یہ خواب مرے
ہر چند یہ جسم و جاں ٹھہرے
پر ایسے جسم وجاں تو نہیں
جو اور کسی کے پاس نہ ہوں
پھر یہ بھی ممکن ھے سوچو
یہ لفظ مرے یہ خواب مرے
سب جھوٹے ہوں
تم ایسی محبت مت کرنا
گر کرو محبت تو ایسی
جس طرح کوئی سچائی کی رَو ہر جھوٹ کو سچ کر جاتی ھے

گلیوں کا بچہ

مجھ کو دیکھا ہے تم نے
مجھ کو تم جانتے ہو
آوارہ سڑکوں کا بچہ ہوں میں
مجھ کو پہچانتے ہو
جب سے آنکھیں کھلیں
مجھ کو سڑکیں ملیں
گود کیا ہے، میں نے نہ جانا کبھی
پیار سچ ہے، یہ نہ مانا کبھی
کبھی بستر ملا آسماں کے تلے
کبھی کُوڑے کنارے پناہ مل گئی
میں کھلونوں کو پا کے روتا بھی کیا
مجھ کو روٹی کے ٹکڑے میں جاں مل گئی
کچھ خواب ہی ہیں حقیقت میری
کیا خواب ہی ہیں قسمت میری؟
وہ پڑھنے، لکھنے، کتابوں کا خواب
وہ روزانہ سکول جانے کا خواب
وہ کپڑے بدلنے، نہانے کا خواب
وہ بننے، سنورنے، دکھانے کا خواب
میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا خواب
وہ اپنی ہی سائیکل چلانے کا خواب
بڑا آدمی ایک بننے کا خواب
سب کو بڑا پھر بنانے کا خواب
تعبیر خود ان کو کر لوں گا میں
اپنے خوابوں میں خود رنگ بھر دوں گا میں
بس میٹھے سے اپنے کچھ بول دو
میرے ہاتھوں میں بس تم نہ کشکول دو

نیند سے باہر گِرا خواب

ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک خواب جلتا ہے
کہیں آنسو چمکتے ہیں
کہیں مہتاب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں سورج نکلتا ہے
کہیں کالی کلوٹی رات پھرتی ہے
کہیں چھپ کر کوئی دِیپک
پسِ محراب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں اُجلے پرندے ہیں
کہیں خونی درندے ہیں
کہیں یادوں کا جنگل ہے
کہیں صحرا، کہیں جَل ہے
کہیں برفاب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں بادل برستے ہیں
کہیں نیناں ترستے ہیں
کہیں دل کے سمندر میں
کوئی بے آب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں دو پھول کِھلتے ہیں
کہیں ہم روز ملتے ہیں
کہیں سب زخم سِلتے ہیں
ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک بام روشن ہے
کہیں اِک باب جلتا ہے
کہیں پنہاں، کہیں ظاہر
ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک خواب جلتا ہے

نصیر احمد ناصر

ابد کے اس طرف بھی فاصلے ہیں

مسافر ہوں
تِرے شہرِ محبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا
چلا جاؤں گا اپنے راستے پر
زندگی کی رات ڈھلنے دے، بدن کو مات ہونے دے
رُکی ہے جو لبوں پر بات، ہونے دے
تِرا شہرِ محبت خوب ہے، لیکن اسیری کا بہانہ ہے
ازل کی اولیں ساعت، ابد کا آخری لمحہ
یہیں پر مرتکز سارا زمانہ ہے
مگر مجھ کو
فصیلِ وقت کے ٹھہرے ہوئے اس دائرے کو پار کرنا ہے
ابد کی سرحدوں سے دُور آگے
لاجوردی روشنی سے پیار کرنا ہے
تِرا شہرِ محبت تو مِرا پہلا پڑاؤ ہے
جسے تُو آخری منزل سمجھتی ہے
دلوں کے راستوں پر وہ فقط اِک نیم روشن سا الاؤ ہے
بڑی لمبی مسافت ہے، بڑا گہرا یہ گھاؤ ہے
ابد کے اس طرف بھی راستے ہی راستے ہیں
فاصلوں کا ایک نادیدہ بہاؤ ہے
جسے میں دیکھ سکتا ہوں
جسے میں چُھو بھی سکتا ہوں
مگر میں تو مسافر ہوں
تِرے شہرِ محبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا

نصیر احمد ناصر

بس یہی گلا ہے زندگی سے

بس یہی گلا ہے زندگی سے
ہمیں کیا ملا ہے زندگی سے
غموں کے عادی ہے دکھ کے سائے ہیں
ستم جانے کیا کیا ہم نے کھائے ہیں
اندھری ہی اندھیری ہیں روشنی نہیں ہے
سب کو چاند ملا مجھ کو چاندنی نہیں ہے
سب کے سنگ ساتھی ہے
سب خوشی سے جی رہے ہیں
زہیر یہ جدائی والا
بس ہم ہی پی رہے ہیں
ہر کوئی آس رہا
میری آنکھوں میں ہی پانی ہے
میری بربادیوں کی
یہ جیسے کوئی نشانی ہے

برکھا کی ایک شام۔۔۔


اُداسیوں کے یہ زرد موسم
فضا میں بکھری پُرانی یادیں
اُجاڑ پیڑوں پہ تنکا تنکا
بکھرتے چڑیوں کے آشیا نے
زمیں پہ رکھے ہوئے کٹورے سے پانی پیتے وہ دو کبوتر
نمی کی لرزش سے جِھلملا تے سیاہ آنکھوں میں قید منظر
اُفق پہ چھا ئی شفق کی لالی
پھر آج آنکھوں میں بھر رہی ہے
یہ فُرقتوں سے نڈھال برکھا
مِرے لہو میں اُتر رہی ہے

احتشام علی

شاید


زندگی کے رَستے میں
شام ہو گئی شاید
ہاتھ تھام کر میرا
شبنمی فضاؤں کی
سمت لے کے آتا ہے
دَرد مُسکراتا ہے

Sunday, December 25, 2011

(♥♥) میں یہاں اور تو وہاں جاناں (♥♥)


میں یہاں اور تو وہاں جاناں
درمیاں سات آسمان جاناں
ہم نہیں ہوں گے اور دنیا کو
تو سنائے گا داستاں جاناں
دیکھنے میں تو کچھ نہیں لیکن
اک زمانہ ہے درمیاں جاناں
رو رہے پرند شاخوں پر
جل گیا ہو گا آشیاں جاناں
اور اک محبت میرا اثاثہ ہے
اور اک ہجر بہ کراں جاناں
یہ تو سوچا نہ تھا کبھی آنسو
ایسے جائیں گے رائیگاں جاناں
میں تیرے بارے میں کچھ غلط کہہ دوں
کٹ نہ جائے میری زباں جاناں

اے بندے دیکھتا یہاں وہاں کیا ہے

اے بندے دیکھتا یہاں وہاں کیا ہے
محبت تو تیرے اندر ہی پنہاں ہے
یہ تو کبھی خدا کی صور ت میں جلوہ گرہے
تو کبھی خدا کی بنائی ہوئی خدا میں ہے
یہ تو کو ن و مکاں میں یہ زمین و آسمان میں ہے
یہ تو پھولوں اور کلیوں کی مہک میں بسی ہے
یہ تو بہتے جھرنوں اور پرندوں کی بولی میں پلی ہے
اے بندے تجھے محبت کی تلاش ہے
تو یہ تجھے بارش کی بوندوں میں ملے گی
حمد و ثنا ہ کرتے ہوئے پرندوں میں ملے گی
شبنم کے قطروں میں اور نسم سحر میں ملے گی
یہ نا تجھے تیرے مال و زر میں ملے گی
یہ تو تجھے تیرے سجدوں میں ملے گی
فقط تجھے تیری ماں کے قدموں میں ملے گی
اے بندے پھر بھی تو نا امید نامراد ہے
تو پھر تو اپنے خدا کے بندوں سے محبت کر
ذات پات بھول کر نا کوئی شیعہ نا کوئی سنی
بندوں سے کرتا جا محبت یہی تیرا کام ہے
یہی ھمارے خدا اور ھمارے نبی کا فرمان ہے

ساحل سمندر

|ساحل سمندر پر اکثر میں یہ سوچتی ہوں
ٹھنڈی اور گیلی ریت پر
جب لہریں پاؤں سے ٹکراتیں ہیں۔
تب کیوں خیالوں میں تم آ جاتے ہو۔
میری یادوں کے جھروکوں پر کیوں تم چھا جاتے ہو۔
میری یہ سوچیں کہتی ہیں مجھے
کاش
پورے چاند کی رات ہو تم میرے ساتھ ہو
رات یوں ہی تھم جائے
ایسے میں صبح نا ہونے پائے
پھر ناجانے کیوں تم میری دھڑکنوں کو بے چین کر کے
لہروں کے ساتھ واپس سمندر میں مل جاتے ہو

عجب کشمکش کے راستے ہیں


عجب کشمکش کے راستے ہیں
بڑی کٹھن یہ مسافتیں ہیں

میں جس کی راہوں میں بِچھ گئی ہوں
اسی کو مجھ سے شکائتیں ہیں

شکائتیں سب بجا ہیں، لیکن
میں کیسے اس کو یقیں دلاؤں

اُسے بُھلاؤں تو
مر نہ جاؤں
میں اس خموشی کے امتحاں میں

کہاں کہاں سے گزر گئی ہوں
اُسے خبر بھی نہیں ہے شاید

میں دھیرے دھیرے
بکھر گئی ہوں

اور بھی دکھ تھے


مجھے تیرے درد کے علاوہ بھی.
اور بھی دکھ تھے یہ مانتا ہوں.
ہزار غم تھے جو زندگی کی .
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں .
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں.
درد کی ریت چھانتا ہوں .
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر.
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے.
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں .
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے.
یہ درد موج صبا ہوا ہے .
یہ آگ دل کی سادہ بنی ہے .
اور اب یہ سری متاع ہستی .
یہ پھول یہ زخم سب تیرے ہیں
یہ دکھ کے نوحے ،یہ سنک کے نغمے .
جو کل مرے تھے اب وو تیرے ہیں .
جو تیری قربت تیری جدائی .
میں کٹ گئے روز و شب کی طرح ہیں .
وہ تیرا شاعر تیرا مغنی .
وو جس کی باتیں عجب سی تھیں .
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے .
اور ادیں غریب سی تھیں.
وہ جس کی جینے کی خواہشیں بھی .
خود اس کے نصیب سے تھیں.
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ .
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے.
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن.
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے .
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ .
اس کے سینے میں گر چکا ہے .

فراز احمد فراز

جھوٹ

ہمارےا س جہان میں
سنا ہے ایسے لوگ ہیں کہ
جن کی زندگی کے دن
کھلے ہوئے گلاب ہیں
سجے ہوئے چراغ ہیں
گلاب جن کی نکہتوں کے قافلے رواں دواں
چراغ ! چار سو بکھیرتے ہوئے تجلیاں
سنا ہے ایسے لوگ ہیں ہمارے اس جہان میں
خدا کرے کہ ہوں مگر
نہ جانے کیوں مجھے یہ لگ رہا ہے
جیسے جھوٹ ہے

گڑیا


میں عادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
میں ارادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
ہاں مگر بات صرف اتنی سی ہے
کہتا تو ہوں
کہ تم میری ہے میری گڑیا
ہیں وہ ساری خوبیاں
بھولا پن
سادگی
بچپن،دل لگی
ہر خوشی تم سے ہے
روشنی تم سے ہے
تو جان لو اے جانِ من
میں قسمن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
میں رسمن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
ہاں مگر بات اتنی سی ہے
کہتا تو ہوں
کہ تم میں ہے میری گڑیا
ہیں وہ ساری عادتیں
نہ ہوشیاری
نہ چالاکی
معصوم شرارتیں
ہر ہنسی تم سے ہے
زندگی تم سے ہے
تو جان لو اے جانِ من
میں اخلاقن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
میں مروتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
ہاں مگر بات صرف اتنی سی ہے
کہتا تو ہوں
تو اے میری معصوم پری
تو خود سے بھی منفرد
خوبصورت، حسین
پلکوں کی لڑی
تو نہ میرے لفظوں کو سمجھ
نہ میرے انداز پہ جا ، نہ لہجے پہ
کہ لفظ تو آخر لفظ ہی ہیں
اور مجھے پسند نہیں قولِ فعل کا تزاد
تو جان لو اے جانِ من
میں مجبورن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
میں عادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا
ہاں بات صرف اتنی سی ہے
کہتا تو ہوں
اور اس بات کا مجھ کو اعتراف ہے

اجنبی سی راہوں کا

اجنبی سی راہوں کا
اجنبی مسافر ایک
مجھ سے پُوچھ بیٹھا ہے
راستہ بتا دوگے ؟

اجنبی سی راہوں کے
اجنبی سے مسافر سُن
راستہ کوئی بھی ہو
واسطہ کوئی بھی ہو
منزلیں نہیں ملتیں
منزلیں تو دھوکہ ہیں
منزلیں جو مل جائیں
جُستجو نہیں رہتی
زندگی کو جینے کی
آرزو نہیں رہتی

سن لیا ہم نے فیصلہ۔۔۔۔۔ تیرا


سن لیا ہم نے فیصلہ۔۔۔۔۔ تیرا
اور سن کر، اداس ہو بیٹھے
ذہن چپ چاپ آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے

دل یہ کہتا ہے۔۔۔ضبط لازم ہے
ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک
اعتراف شکست کیا کرنا
فیصلے کی گھڑی بدلنے تک

دل یہ کہتا ہے۔۔۔ حوصلہ رکھنا
سنگ رستے سے ہٹ بھی سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے
جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں

اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے
یا مناظر بجھے بجھے ۔۔۔دیکھیں
اک طرف تو ہے ، اک طرف دل ہے
دل کی مانیں، کہ اب تجھے دیکھیں ؟

خود سے کشمکش سی جاری ہے
راہ میں حائل تیرا غم بھی۔۔۔۔ حائل ہے
چاک در چاک ہے قبائے حواس
بے رفو سوچ، روح گھائل ہے

تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے
غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے
ورنہ یوں ہے کہ دامن ِ دل میں
چند سانسیں ہیں، گن کے جی لیں گے

کسی کے چھوڑ جانے سے

کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
ہماری ذات مرتی ہے
ہماری روح روتی ہے
کہ ہم زندہ توہوتے ہیں
مگر دھڑکن کی نگری سے
کوسوں دور ہوتے ہیں
کبھی سانسوں کی گردش کو
پامال کرتے ہیں
کبھی خوشیوں کی دستک کو
تیرگی خیال کرتے ہیں
مگر کوئی پوچھے یہ ہم سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
تمھاراحال کیسا ہے؟
تو ادائے دلبری سے ہم
ہنس کر اس سے کہتے ہیں
کسی کے چھوڑ جانے سے
کسی کے بھول جانے سے
بھلا کون مرتاہے

تمہیں کس نے کہا تھا ؟


تمہیں کس نے کہا تھا ؟
دوپہر کے گرم سورج کی طرف دیکھو
اور اتنی دیر تک دیکھو!
کہ بینائی پگھل جائے!!


تمہیں کس نے کہا تھا ؟
آسمان سے ٹوٹتی اندھی الجھتی بجلیوں سے
دوستی کر لو
اور اتنی دوستی کر لو
کہ گھر کا گھر ہی جل جائے!!


تمہیں کس نے کہا تھا ؟
ایک انجانے سفر میں
اجنبی رہرو کے ہمرہ دور تک جائو
اور اتنی دور تک جائو!
کہ وہ رستہ بدل جائے!!

محسن نقوی

Thursday, December 22, 2011

ہر ایک خوابِ سفر آنسوؤں میں ڈھل جائے


ہر ایک خوابِ سفر آنسوؤں میں ڈھل جائے
میں جس کے ساتھ چلوں راستہ بدل جائے

عجیب رسم ہے دنیا میں آب و دانے کی
لگائے تخم کوئی اور کسی کو پھل جائے

وہ پھول خواب جنہیں دیکھنے میں عمر لگے
ذرا سی دیر کو آئے وہ اور مَسل جائے

عجب گھٹن سی تھی دل میں تو یہ خیال آیا
تھمے جو آج یہ دھڑکن تو جی سنبھل جائے

جو میرے ساتھ ہوا میں ہی جانتا ہوں عدیل
کسی کے ساتھ ہو یہ سب تو دم نکل جائے

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے

میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لئے
توں ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے

تیرے رستے کا، جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے

سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے

اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

آخری بات مجھے یاد ہے اس کی ساگر
روگ اُس کا نہ میں دل سے لگاؤں اپنے

بہت امید رکھنا اور پھر بے آس ہونا بھی

بہت امید رکھنا اور پھر بے آس ہونا بھی
بشر کو مار دیتا ہے بہت حساس ہونا بھی

سنو اک کان سے، اور دوسرے سے پھینک دو باہر
بہت تکلیف دہ ہے صاحبِ احساس ہونا بھی

یونہی تو ابرِرحمت کی طلب کرتا نہیں کوئی
ضروری ہے مقدر میں ذرا سی پیاس ہونا بھی

بہت سے قلب رک جاتے ہیں خوشیوں کی خبر پا کر
ہمیں تو خوب جچتا ہے غموں کا راس ہونا بھی

جلے گی خود بخود سعدی دلوں میں پیار کی شمع
غنیمت ہے ابھی میرا اسے احساس ہونا بھی

اتنی شدت سے وہ شخص میری رگوں میں اتر گیا ہے

اتنی شدت سے وہ شخص میری رگوں میں اتر گیا ہے
کہ اسے بھولنے کے لیے مجھے مرنا ہو گا

میرا سوچنا تیری زات تک


میرا سوچنا تیری زات تک
میری گفتگو تری بات تک

نہ تم ملو جو کبھی مجھے
میرا ڈھونڈنا تجھے پار تک

کبھی فرصت تجھے ملے توآ
میری زندگی کے حصار تک

میں نے جانا کے میں کچھ نھی
تیرے پہلے سے تیرے بعد تک

میری راتیں تیری یادوں سے سجی رہتی ہیں

میری راتیں تیری یادوں سے سجی رہتی ہیں
میری سانسیں تیری خوشبو میں بسی رہتی ہیں

میری آنکھوں میں تیرا سپنا سجا رہتا ہے
ہاں میرے دل میں تیرا عکس بسا رہتا ہے


اس طرح میرے دل کے بہت پاس ہو تم
جس طرح پاس ہی شہ رگ کے خدا رہتا ہے

تم کو معلوم بھی شاید یہ کبھی ہو کہ نہ ہو
میرے آنگن میں لگے پھول گواہی دیں گے

میں نے عرصے سے کسی پھول کو دیکھا بھی نہیں
تجھ کو سوچا ہے تو پھر تجھ کو ہی سوچا ہے فقط

تیرے سوا کسی اور کو سوچا بھی نہیں
تم کو معلو م بھی شاید یہ کبھی ہو کہ نہ ہو

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
کہو کس کو بتاؤ گے؟
وہ اپنی الجھنیں ساری
وہ آنکھوں میں چھپے آنسو
کسے پھر تم دکھاؤ گے؟
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
بہت بے چین ہو گے تم
بہت تنہا رہو گے تم
ابھی بھی تم نہیں سمجھے
ہماری ان کہی باتیں
مگر جب یاد آئیں گے
بہت تم کو رلائیں گے
بہت چاہو گے پھر بھی تم
ہمیں نہ ڈھونڈ پاؤ گے
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

چلتی ہی جا رہی ہوں انجان راستوں پر


چلتی ہی جا رہی ہوں انجان راستوں پر
حیرت میں گم ہوں خود بھی حیران راستوں پر
یادوں کے زخم جلتے ہیں اور بھی زیادہ

ملتا نہیں ہے کچھ بھی ویران راستوں پر
نبھتے نہیں ہیں رشتے راہوں میں بننے والے
کرنا نہ تم کسی سے پہچان راستوں پر
آندھی جو وقت کی ہے آکر مٹا نہ ڈالے
کیا لکھ رہی ہو تم اے نادان راستوں پر
ہاں کچھ نہ کچھ تو ہم میں بھی آشنائی ہو گی
ویراں سی پھر رہی ہوں ویران راستوں پر
جھیلا ہے ہم نے عنبر ان مشکلوں کو برسوں
کیسے چلیں بھلا اب آسان راستوں پر

نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے۔


نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے۔
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے۔
حسین تیری آنکھیں حسین تیرے آنسو۔
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔
کچھ سننے سنانے کو جی چاہتا ہے۔
کچھ لمحے بیتانے کو جی چاہتا ہے۔
تھا کسی کے منانے کا انداز ہی ایسا کہ۔
روز روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے۔

بس قسمت میں نہیں ہو تم


اک دن اس نے پوچھا،
میں کہاں ھوں؟
میں نے کہا ۔ ۔ ۔
میرے دل میں،
میری جان میں ھو تم،
میری سانس میں ھو تم ،
میری آس میں ھو تم،
میری دل کی د ھڑکن میں ھو تم ،
میری آخری سانس میں ھو تم،
پھر پوچھا مجھ سے ،
کہاں نہیں ھوں میں؟
میں نے رو کہ کہا۔ ۔ ۔
بس،،،،،،
میری قسمت میں نہیں ھو

عمر کی راہ میں راستے بدل جاتے ہیں

عمر کی راہ میں راستے بدل جاتے ہیں
وقت کی آندھی میں انسان بدل جاتے ہیں

سوچتے ہیں کہ تمہیں اتنا یاد نہ کریں لیکن
آنکھ بند کرتے ہی ارادے بدل جاتے ہیں

سنو! قسمت سے لڑنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے


سنو! قسمت سے لڑنے کی
کبھی کوشش نہیں کرتے
مقدر جب مخالف ہو
دعائیں بے اثر جائیں
تو ایسے میں بغاوت کی
کبھی کوشش نہیں کرتے
کسی کے ساتھ چلنے کی
کسی کے دل میں بسنے کی
کبھی خواہش نہیں کرتے
کسی اک شخص کی خاطر
سبھی سے دور ہو جانا
کہاں کی یہ محبت ہے
محبت یہ نہیں ہوتی
محبت دل میں ہوتی ہے
محبت عکس ہے رب کا
جبھی یہ مر نہیں سکتی
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
ہمیشہ ساتھ چلتی ہے

وہ چپ رہا تو یوں لگا کہ زندگی سکوت ہے


وہ چپ رہا تو یوں لگا کہ زندگی سکوت ہے
جو لب ہلائے تو نکل پڑی ہزار داستاں

وہ شخص جب سے کھو گیا مرا نصیب سو گیا
وہی تھا انجمن مری ، وہی تھا میرا کارواں

آنکھوں میں جلائے امید کے دِیے رکھناآسا ن تو نہیں


آنکھوں میں جلائے امید کے دِیے رکھناآسا ن تو نہیں
ہجر کا زہر ہر روز ہی پیئے رکھنا آسان تو نہیں

اس سے ملے غم بھی سینے سے لگائے رہنا
وہ کوئی بھی ستم کر لے لب سِیے رکھنا آسان تو نہیں


سفرِ فراق میں اک بھی لمحہ اسے بھو ل نہیں پایا
ہر پل میں اسے یاد کیے رکھنا آسان تو نہیں


یہ بھی معلوم ہے وہ اب لوٹ کر آنے والا نہیں
پھر بھی خود کو حوصلا دیے رکھنا آسان تو نہیں

عشق کس بلا کا نام ہے یہ دیوانے ہی جانتے ہیں
دل دے کر درد دل لیے رکھنا آسان تو نہیں

بتاؤ کیا ملا تم کو بھلا ہم سے خفا ہو کر

بتاؤ کیا ملا تم کو بھلا ہم سے خفا ہو کر
سنا ہے تم بھی پریشان ہو ہم سے جدا ہو کر

قصور آخر تمارا ہے یا ہمارا خدا جانے
کبھی یہ بات سوچیں گے پھر سے ایک جگہ ہو کر

ابھی تک یاد ہے ہم کو تمارا وہ حسیں وعدہ
نہ تم جی پاؤ گے دنیا میں ہم سے بے وفا ہو کر۔

لب و رخسار و جبیں سے ملیے


لب و رخسار و جبیں سے ملیے 
جی نہیں بھرتا کہیں سے ملیے

یوں نہ اُس دل کے مکیں سے ملیے
آسماں بن کے زمیں سے ملیے

گھُٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تک
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے

کیوں حرم میں یہ خیال آتا ہے؟
اب کسی دشمنِ دیں سے ملیے

جی نہ بہلے رَمِ آہو سے تو پھر
طائرِ سدرہ نشیں سے ملیے

بجھ گیا دل تو خرابی ہوئی
پھر کسی شعلہ جبیں سے ملیے

وہ حاکمِ دوراں تو نہیں !
مت ڈریں اُن کی "نہیں" سے ملیے

جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی


جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی
کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی

پھر مجھ سے يوں ملے تھے تم ماہِ فروری ميں
جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں

کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر

اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا
دنيا بدل رہي تھی موسم بدل رہا تھا

ليکن مئی جو آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ

دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں
تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں

ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی

اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر
بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر

تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا
دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا

جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی

بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے

ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا، يہ سال دوسرا ہے

یہ شبِ فراق یہ بے بسی


یہ شبِ فراق یہ بے بسی، ہیں قدم قدم پہ اداسیاں
میرا ساتھ کوئی نہ دے سکا، میری حسرتیں ہیں دھواں دھواں


میں تڑپ تڑپ کے جیا تو کیا، میرے خواب مجھ سے بچھڑ گئے
میں اداس گھر کی صدا سہی، مجھے دے نہ کوئی تسلّیاں


چلی ایسی درد کی آندھیاں، میری دل کی بستی اجڑ گئی
یہ جو راکھ سی ہے بجھی بجھی، ہیں اسی میں میری نشانیاں


یہ فضا جو گرد و غبار ہے، میری بے کسی کا مزار ہے
میں وہ پھول ہوں جو نہ کھِل سکا، میری زندگی میں وفا کہاں

اُس شام کو وہ کچھ اُلجھی سی تھی


اُس شام کو وہ کچھ اُلجھی سی تھی
اُس کی باتوں میں کچھ تلخی سی تھی
جیسے کالی گھٹائیں چھائی ہوں ہر سُو
اس کی زلفیں کچھ ایسے بکھری سی تھیں
سنوارنا جو چاہا میں نے ان بکھری زلفوں کو
اُس کی آنکھوں میں دِکھتی کچھ نمی سی تھی
لِپٹ کر مجھ سے اس قدر روئی تھی وہ
اُسکی زندگی میں جیسےمیری کمی سی تھی
فاخر راز

تیری ابتدا کوئی اور ہے


تیری ابتدا کوئی اور ہے
تیری انتہا کوئی اور ہے

تیری بات ہم سے ہوئی تو کیا
تیری سوچ میں کوئی اور ہے

مجھے شوق تھا بڑی دیر تک
تیرا شریکے سفر رہوں مگر

تیرے ساتھ چل کر خبر ہوئی
تیرا راستہ کوئی اور ہے

تجھے فکر ہے کہ مجھے بدل دیا
گردش اور حالت نے ساگر

کبھی خود سے بھی تو سوال کر
تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

Sunday, December 18, 2011

غُبارِ، ابر بن گیا، کمال کر دیا گیا


غُبارِ، ابر بن گیا، کمال کر دیا گیا
ہری بھری رُتوں کو میری شال کر دیا گیا

قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں
سو جو بھی اپنے پاس تھا، نکال کر دیا گیا

میں زخم زخم ہو گیا، لہو وفا کو رو گیا
لڑائی چِھڑ گئی تو مُجھ کو ڈھال کر دیا گیا

گُلاب رُت کی دیویاں، نگر گُلاب کر گئیں
میں سُرخرو ہوا، اُسے بھی لال کر دیا گیا

تُو آ کے مُجھ کو دیکھ تو غُبار کے حصار میں
تِرے فراق میں، عجیب حال کر دیا گیا

وہ زہر ہے فضاؤں میں کہ آدمی کی بات کیا
ہوا کا سانس لینا بھی، محال کر دیا گیا

منظر میں کہاں جچتی ہے تصویر ہماری

منظر میں کہاں جچتی ہے تصویر ہماری
ہم خواب ہیں اور الٹی ہے تعبیر ہماری

دریاؤں سے کچھ ربط ہوا اِتنا زیادہ
پانی پہ لکھی لگتی ہے تقدیر ہماری

مسمار کیے جاتے ہیں معمار ہی ہم کو
کب جانے مکمل کریں تعمیر ہماری

اے وقت! اِسے اپنی کسی موج پہ لکھ لے
مٹ جائے کہیں ہم سے نہ تحریر ہماری

ہم ذات میں اپنی کسی صحرا کی طرح ہیں 
ہو پائے گی تم سے کہاں تسخیر ہماری

ڈوبیں گے کبھی وقت کے دریا میں جو اشرف
در آئے گی لہروں میں بھی تاثیر ہماری
اشرف نقوی

یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک

نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے
مگر وہ ہے کہ مسلسل دیے جلاتا ہے

کبھی سفر کبھی رختِ سفر گنواتا ہے
پھر اُس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے

یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے

یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے

وہ کون تھا میں جسے راستے میں چھوڑ آیا
“ یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ آتا ہے“

وہی تسلسلِ اوقات توڑ دے گا کہ جو
درِ اُفق پہ شب و روز کو ملاتا ہے

جو آسمان سے راتیں اُتارتا ہے سلیم
وہی زمیں سے کبھی آفتاب اُٹھاتا ہے
سلیم کوثر

قرار کھو کے، دلِ بے قرار باقی ہے

قرار کھو کے، دلِ بے قرار باقی ہے
جو زخم کھائے ہیں اُن کا شمار باقی ہے

عبور کر چکی دشتِ جنوں بھی میں لیکن
ہنوز سامنے اِک ریگزار باقی ہے

سنا کے داستاں غم کی بھی لفظ لفظ مگر
میں کیا کروں، وہی دل کا غبار باقی ہے

دکھوں کی لہر اور سیلِ غم میں بہہ کر بھی
یہ سخت جان، دلِ خونبار باقی ہے

غموں کی آگ میں جل کر میں بن گئی کندن
جبھی تو چہرے پہ اب تک، نکھار باقی ہے

وہ میٹھے بول جو رَس گھولتے تھے کانوں میں
زمانے بعد بھی اُن کا خمار باقی ہے

خزاں رسیدہ ذہن تھک گیا ہے اب، لیکن
یہ دل ہے، جس میں اُمیدِ بہار باقی ہے

آتا ہے یاد اَب بھی سراپا وہ خواب سا


آتا ہے یاد اَب بھی سراپا وہ خواب سا
اتُرا جو میری تشنہ لبی پر سحاب سا
اقرارِ مُدّعا پہ ٹھٹکتے ہوئے سے ہونٹ
آنکھوں پہ کھنچ رہا تھا حیا کا نقاب سا
اُس کو بھی اَن کہی کے سمجھنے میں دیر تھی
کہنے میں کچھ مجھے بھی ابھی تھا حجاب سا
تھی اُس سے جیسے بات کوئی فیصلہ طلب
تھا چشم و گوش و لب کو عجب اِضطراب سا
تھا حرف حرف کیا وہ نگاہوں پہ آشکار
منظر وہ کیا تھا مدِّمقابل کتاب سا
ماجد صدیقی

کس نے پہلے ہاتھ چھڑایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کون ہی سورج کون ہے سایہ میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کس نے پہلے ہاتھ چھڑایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

جس کی خاطر ساحل ساحل سیپیاں چُنتے بیت گئے
کیوں وہ موتی ہاتھ نہ آیا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس کو کتنا نام ملا اور کس کو ہی الزام مِلا
کس نے کس کا وقت گنوایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

کس نے کتنی آس بندھائی کس نے کتنی جان چھڑائی
کس نے کتنا ساتھ نبھایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ہم جو تعلق کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے
جیون میں یہ دن کیوں آیا، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

اس کی باتیں سننے والے تیرے جیسے لگتے ہیں
کس کو قمر نے حال سنایا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ریحانہ قمر

ہم خواب ہیں اور الٹی ہے تعبیر ہماری

منظر میں کہاں جچتی ہے تصویر ہماری
ہم خواب ہیں اور الٹی ہے تعبیر ہماری

دریاؤں سے کچھ ربط ہوا اِتنا زیادہ
پانی پہ لکھی لگتی ہے تقدیر ہماری

مسمار کیے جاتے ہیں معمار ہی ہم کو
کب جانے مکمل کریں تعمیر ہماری

اے وقت! اِسے اپنی کسی موج پہ لکھ لے
مٹ جائے کہیں ہم سے نہ تحریر ہماری

ہم ذات میں اپنی کسی صحرا کی طرح ہیں
ہو پائے گی تم سے کہاں تسخیر ہماری

ڈوبیں گے کبھی وقت کے دریا میں جو اشرف
در آئے گی لہروں میں بھی تاثیر ہماری
اشرف نقوی

اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا


اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا

بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا
میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا

مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی
تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا

تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ
ترے حضور مرا حرفِ سادہ کیا کرتا

بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا
ناصر کاظمی

کوئی اور ہے، نہیں تُو نہیں، مرے روبرُو کوئی اور ہے

کوئی اور ہے، نہیں تُو نہیں، مرے روبرُو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر، یہ لگا کہ تُو کوئی اور ہے

یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمُو کوئی اور ہے

جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خُو کوئی اور ہے

کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا مے کدہ کہیں اور ہے، مرا ہم سبُو کوئی اور ہے
ناصر کاظمی

ہجر پھر ہجر ہے وصال کہاں


دل بدن کا شریک حال کہاں
ہجر پھر ہجر ہے وصال کہاں

عشق ہے نام انتہاوں کا
اس سمندر میں اعتدال کہاں

ایسا نشہ تو زہر میں بھی نہ تھا
اے غمِ دل تیری مثال کہاں

ہم کو بھی اپنی پائمالی کا
ہے مگر اس قدر ملال کہاں

میں نئی دوستی کے موڑ پہ تھا
آگیا ہے تیرا خیال کہاں

دل کہ خوش فہم تھا سو ہے ورنہ
تیرے ملنے کا احتمال کہاں

وصل و ہجراں ہیں اور دنیائیں
ان زمانوں میں ماہ و سال کہاں

تجھ کو دیکھا تو لوگ حیراں ہیں
آگیا شہر میں غزال کہاں

تجھ پہ لکھی تو سج گئی ہے غزل
آ ملا خواب سے خیال کہاں

اب تو شہہ مات ہو رہی ہے فراز
اب بچاو کی کوئی چال کہاں

ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا

ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھا

نھ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھا

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھا

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدق جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھا

يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تا لاديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھا

جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھا

اتنے بھی تو وہ خفا نہیں تھے

اتنے بھی تو وہ خفا نہیں تھے
جیسے کبھی آشنا نہیں تھے

مانا کہ بہم کہاں تھے ایسے
پر یوں بھی جدا جدا نہیں تھے

تھی جتنی بساط کی پرستش
تم بھی تو کوئی خدا نہیں تھے

حد ہوتی ہے طنز کی بھی آخر
ہم تیرے نہیں تھے، جا نہیں تھے

کس کس سے نباہتے رفاقت
ہم لوگ کہ بے وفا نہیں تھے

رخصت ہوا وہ تو میں نے دیکھا
پھول اتنے بھی خوشنما نہیں تھے

تھے یوں تو ہم اس کی انجمن میں
کوئی ہمیں دیکھتا ، نہیں تھے

جب اس کو تھا مان خود پہ کیا کیا
تب ہم بھی فراز کیا نہیں تھے

ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے


ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تیری بزم سے اُٹھنا
محسُوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنّا کے لیے عمر پڑی ہے
کچھ دیر کسی زُلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابل غمِ دوراں کی ابھی دُھوپ کڑی ہے
قابل اجمیری

زندگی! آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں

کُوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی! آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں

تیرے اخلاص کے افسُوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹُوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزا دیتے ہیں

ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جُھکا دیتے ہیں

سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خُوباں کے دروبام صدا دیتے ہیں

ہم نے اس کے لب و رُخسار کو چُھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گُلزار بنا دیتے ہیں
قابل اجمیری

چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا

چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا
دل ہے کہ نہیں مانتا، نادان کہیں کا

جائیں تو کہاں جائیں اسی سوچ میں گُم ہیں
خواہش ہے کہیں کی، تو ہے ارمان کہیں کا

ہم ہجر کے ماروں کو کہیں چین کہاں ہے
موسم نہیں جچتا ہمیں اک آن کہیں کا

اُس شوخیِ گُفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا

یہ وصل کی رُت ہے کہ جُدائی کا ہے موسم
یہ گُلشنِ دل ہے کہ بیابان کہیں کا

کر دے نہ اُسے غرق کوئی ندّی کہیں کی
خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا
افتخار راغب

میرے درد کی جو دوا کرے کوئی ایسا شخص ہوا کرے


میرے درد کی جو دوا کرے کوئی ایسا شخص ہوا کرے
وہ جو بے پناہ اداس ہو مگر ہجر کا نا گلہ کرے

میری چاہتیں میری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم
تو وہ سب سے چھپ کے لباس شب میں لپٹ کے آہ و بقا کرے

بڑھے اسکا غم تو قرار کھودے وہ میرے غم کے خیال سے
اٹھے ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی میرے لئے ہی دعا کرے

یہ قصص عجیب و غریب ہے یہ محبتوں کا نصیب ہے
مجھے کیسے خود سے جدا کرے، کوئی کچھ بتائے کہ کیا کرے

کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ وہ فراق کے سارے فاصلے
میرے پیچھے آ کے دبے دبے میری آنکھیں موند ہنسا کرے

بڑا شور ہے میرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا
وہ میری ہی جان نہ ہو کہیں، کوئی کچھ تو جا کے پتا کرے

یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے، میں نہیں ہوں پھر میری آرزو
کو جنوں ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے

بھلا کیسے ہی اپنے آپ کو میں رفیق جاں بنا سکوں
کوئی اور ہے تو بتا تو دے،کوئی ہے کہیں تو صدا کرے

اسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی میری خلوتوں کی اداسیاں
وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ، میرا مولا تیرا بھلا کرے

کوئی تعبیر کا منظر نہ دکھایا جائے


کوئی تعبیر کا منظر نہ دکھایا جائے
ہم کو سہمے ہوئے خوابوں سے ڈرایا جائے

کتنی بے نور ہیں زنداں کی یہ بوجھل شامیں
ان میں یادوں کا کوئی دیپ جلایا جائے

طالبِ دید ہیں جلوے مری زیبائی کے
جانبِ طور جو موسیٰ کو بلایا جائے

آج ہم ہار کے آئے ہیں تمنا تیری
آج پھر روٹھے خداؤں کو منایا جائے

ہم نے مانا کہ انہیں موت کا صدمہ ہو گا
اس بہانے سے انہیں گھر تو بلایا جائے

جس جگہ ٹھہروں تیرے پیار کی خوشبو گھیرے
جس طرف جاؤں تیری یاد کا سایا جائے
شازیہ اکبر

دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں

دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں
شہر کے سارے لوگ رُلانے آتے ہیں

دل کی کلیاں تیرے نام پہ کھِلتی ہیں
تارے بھی اب مانگ سجانے آتے ہیں

تُم پر خوشیوں کے سارے ہی موسم اُتریں
ہم کو سارے دُکھ بہلانے آتے ہیں

جانے کیا دیکھا تھا تیری آنکھوں میں
جانے کیوں اب خواب سہانے آتے ہیں

مَن مندر میں رکھ کر تیری مورت کو
ہم پوجا کا دیپ جلانے آتے ہیں
شازیہ اکبر

نہ خیالِ سود و زیاں رہا، نہ کسی خوشی کی طلب رہی

نہ خیالِ سود و زیاں رہا، نہ کسی خوشی کی طلب رہی
ترے بعد کوئی سکوں رہا ، نہ ہوائے شہرِ طرب رہی

مری دھڑکنوں میں بسی ہوئی، مرے خُون میں ہے گُھلی ہوئی
وہ ترے جمال کی تازگی جو مرے جنوں کے سبب رہی

مرے بعد گزری ہے اُس پہ کیا، مجھے اُس کی کوئی خبر نہیں
وہ اُجالتی رہی زندگی کہ اسیرِ حلقۂ شب رہی

وہ نہیں ہے تو نہیں خود سے بھی کوئی رابطہ کوئی سلسلہ
وہی روزوشب مرے بس میں تھے،مری دسترس میں وہ جب رہی

تُو رہا کسی کی تلاش میں، میں تری تلاش میں گُم رہا
تری جستجو بھی عجیب تھی، مری جستجو بھی عجب رہی

شمشیر حیدر

ہر ایک کھیت میں اُجلی کپاس ہوتے ہُوئے


ہر ایک کھیت میں اُجلی کپاس ہوتے ہُوئے 
تمام شہر ہے عریاں، لباس ہوتے ہُوئے

یہ مُجھ میں کتنے زمانوں کی یخ ہَوائیں ہیں 
میں اب بھی سرد ہوں سُورج کے پاس ہوتے ہُوئے

عجیب شخص ہے دریا میں ہاتھ ڈالا اور 
وہیں سے لوٹ گیا اِتنی پیاس ہوتے ہُوئے

غُبارِ راہ چھٹا، تو وہ سامنے آیا 
میں کِھل اُٹھا ہوں اچانک اُداس ہوتے ہُوئے

میں آ گیا ہوں سڑک پر لہو کی ڈھال لئے 
تمام شہر میں خوف و ہراس ہوتے ہُوئے

مجھے یقین نہیں ہے یہ کیسے مُمکن ہے 
وہ اتنا دور ہوا، اِتنا پاس ہوتے ہُوئے

پڑھی ہیں بہت سی باتیں، حکایتوں میں، روایتوں میں


پڑھی ہیں بہت سی باتیں، حکایتوں میں، روایتوں میں
کہ وار دیتے تھے لوگ جانیں، مروّتوں میں، مُحبتوں میں

مُباحثوں نے تو آئینوں کو مزید حیران کر دیا ہے
کہ اُلجھے ہیں عشق کے بل، صراحتوں میں، وضاحتوں میں

حرُوف میرے ہیں تلخ تر، تو ہیں زہر آلُود لفظ تیرے
ورق ورق ہے لہُو کہانی، کہاوتوں میں، عِبارتوں میں

ہیں ایک وہ کہ آسماں کو اپنا مسکن بنا رہے ہیں
اور ایک ہم کہ پھنسے ہوئے ہیں بُجھارتوں میں، بشارتوں میں

یہ عَہد کیا ہے کہ خُونِ آدم کبھی بھی ارزاں نہیں تھا اتنا
کہ فرق کرنا ہُوا ہے مُشکِل، ہلاکتوں میں، شہادتوں میں

یہ سانحہ کیا ہُوا ہے آرش، رہے سلامت نہ گھر، نہ اعضاء
کہ بھُول بیٹھے ہیں صُورتیں بھی، رقابتوں میں، عداوتوں میں

مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا


تباہیوں میں بھی بے خانماں نہ ہونے دیا
مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا

کمال یہ نہیں ہم نے کمال گر یہ کیا
کمال یہ ہے زیادہ دھواں نہ ہونے دیا

خلش ہمیشہ رہی ایک آدھ اس دل میں
دکھوں سے خالی کبھی یہ مکاں نہ ہونے دیا

مجھے تھا خوف نشیمن کے پھر اجڑنے کا
صبا کو اس لئے بھی مہرباں نہ ہونے دیا

اک ایسی موج جسے آبشار ہونا تھا
اسے بھی آنکھ سے اک پل رواں نہ ہونے دیا

مُنافقوں کی طرح ہم نے اُس کا ساتھ دیا
وہ بے وفا ہے اُسے یہ گُماں نہ ہونے دیا

خوشی سے کھیل گئے اپنی جان پر عاصم
کسی طرح سے بھی اِس کا زیاں نہ ہونے دیا

نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے


نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
جو شخص ساتھ نہیں اُس کا عکس باقی ہے

اُٹھا کے لے گئے دزدانِ شب چراغ تلک
سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے

گھٹا اُٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے

اُلٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
مگر خرابہِ دل میں وہ شخص باقی ہے

فراز آئے ہو تم اب رفیقِ شب کو لیے
کہ دور جام نہ ہنگامِ رقص باقی ہے

دشمنی بھی ہو تو اک معیار ہونا چاہیے

دشمنی بھی ہو تو اک معیار ہونا چاہیے
یاد رکھو! سینے پر ہر وار ہونا چاہیے

دھوپ بونے والا بھی یہ چاہتا ہے دیکھیے
اس کے سر پر پیڑ سایہ دار ہونا چاہیے

یا جنونِ زندگی ہو یا تو شوقِ مرگ ہو
آدمی کو کوئی تو آزار ہونا چاہیے

پیچ و خم میں رہروی کا لطف پنہاں ہوتا ہے
راستوں کو مثلِ زلفِ یار ہونا چاہیے

کتنے یوسف اب بھی ہیں تیار بکنے کے لیے
شرط یہ ہے مصر کا بازار ہونا چاہیے

دیکھ اپنے دل کے دروازے کا تالا کھول دے
خالی کمرے میں کرایہ دار ہونا چاہیے

ایک ٹوٹے دوسرے کی آس باقی رہ سکے
آنکھوں میں تو خوابوں کا انبار ہونا چاہیے

ساقی کی من مانیوں پر نقطہ چینی جو کرے
مے کدے میں ایسا اک مے خوار ہونا چاہیے

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے

چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے

ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!

کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے

کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے

دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے

یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے

امجد اسلام امجد

درد ہے کہ نغمہ ہے، فیصلہ کیا جائے

درد ہے کہ نغمہ ہے، فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے

آپ کتنے سادہ ہیں، چاہتے ہیں بس ایسا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہہ دیا جائے

آج سب ہیں بے قیمت، گریہ بھی، تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے، دل میں رو لیا جائے

بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے

داستاں کوئی بھی ہو جو بھی کہنے والا ہو
درد ہی سنا جائے، درد ہی کہا جائے

اب تو فقر و فاقہ کی آبرو اسی سے ہے
تار تار دامن کو کیوں بَھلا سیا جائے

پیرزادہ قاسم

گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا


گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا 

زندگی کی بےسرو سامانیوں کے باوجود 
آج تو آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا 

سوچ کر میں نے چُنی آخری آرام گاہ
میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا

منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں
ایک سفر اچھا لگا ایک ہمسفر اچھا لگا

جو ماں کی تربیّت کے تھے وہ جوہر سامنے آئے

جو ماں کی تربیّت کے تھے وہ جوہر سامنے آئے
مرا جب امتحان لینے گلِ تر سامنے آئے

مجھے کم حوصلہ یاروں کی یاری زہر لگتی ہے
تو جس دل میں عداوت ہو وہ کُھل کر سامنے آئے

نہ کرتی جاں کا سودا تو غریبی اور کیا کرتی
نہ مندر نے اُسے پوچھا نہ منبر سامنے آئے

جو بویا تھا وہی کاٹا تو پھر اس میں تعجّب کیا
کسی سے کچھ نہ کہنا کیسے منظر سامنے آئے

مری تنہائی پر اُن کو بھی شک ہونے لگا شائد
عدُو بھی میرے پیچھے سے گزر کر سامنے آئے

مہتاب قدر

Saturday, December 17, 2011

تھا ناز جن پر کبھی مجھے بھی وہ سب سہارے بدل گئے ہیں

بدل گئی ہے یہ زندگی اب‘ سبھی نظارے بدل گئے ہیں
کہیں پہ موجیں بدل گئی ہیں کہیں کنارے بدل گئے ہیں

بدل گیا ہے اب اس کا لہجہ‘ اب اُس کی آنکھیں بدل گئی ہیں
وہ چاند چہرہ ہے اب بھی ویسا مرے ستارے بدل گئے ہیں

ملا ہوں تم سے تو یوں لگا ہے کہ جیسے دونوں ہی اجنبی ہوں
کبھی جو مجھ کو عزیز جاں تھے‘ وہ طور سارے بدل گئے ہیں

کہیں پہ بدلا ہے کہنے والا‘ کہیں پہ سامع بدل گیا ہے
کہیں پہ آنکھیں بدل گئی ہیں کہیں نظارے بدل گئے ہیں

اس لیے بھی میں سر جھکا کر تمہاری نگری سے چل پڑا ہوں
تھا ناز جن پر کبھی مجھے بھی وہ سب سہارے بدل گئے ہیں

آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ کر کے


آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ کر کے
وقت چھوڑے گا مجھے دوست تمہارا کر کے

بات دریا بھی کبھی رُک کے کیا کرتا تھا
اب تو ہر موج گزرتی ہے کنارہ کر کے

وہ عجب دشمنِ جاں تھا جو مجھے چھوڑ گیا
مرے اندر ہی کہیں مجھ کو صف آرا کر کے

خواب تو خواب، یہاں آنکھ اُجڑ جاتی ہے
حاصلِ جاں! تری فرقت کو گوارا کر کے

اِک دِیا اور جلایا ہے سحر ہونے تک
شب ہجراں ترے نام ایک ستارہ کر کے

اِک کلی شاخ کے اندر ہی کہیں روتی تھی
روزنِ در سے بہاروں کا نظارہ کر کے

جب سے جاگی ہے ترے لمس کی خواہش دل میں
رہنا پڑتا ہے مجھے خود سے کنارہ کر کے

دشت! چھانوں گا تری خاک محبت سے میں
عشق! دیکھوں گا تجھے سارے کا سارا کر کے

کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی


کوئی گماں بھی نہیں درمیاں گماں ہے یہی
اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی

یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی

کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی

میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی

یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی

تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شکستگاں ہے یہی

جون ایلیا

انکار ہی کر دیجئیے اِقرار نہیں تو


انکار ہی کر دیجئیے اِقرار نہیں تو
اُلجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو

ہم بر سرِ پیکار سِتم گر سے ہمیشہ
رکھتے ہیں قلم ہاتھ میں تلوار نہیں تو

بھائی کو ہے بھائی پہ بھروسہ تو بھلا ہے
آنگن میں بھی اُٹھ جائے گی دیوار نہیں تو

بے سود ہر اِک قول ہر اِک شعر ہے راغب
گر اس کے موافق ترا کردار نہیں تو

افتخار راغب

وقت وہ آ گیا ہے اب، میں بھی لبوں کو وا کروں


وقت وہ آ گیا ہے اب، میں بھی لبوں کو وا کروں
تجھ سے کوئی گلہ کروں، تیرا بھی سامنا کروں

ایسے رکھوں تعلقات، ربط نہ کوئی رہ سکے
ذکر نہ ہو کہیں تِرا، یوں تِرا تذکرہ کروں

جاں کا فشار دیکھ کر، بس میں نہیں رہا کہ میں
دل جو کہے وہ مان لوں، اور سدا وفا کروں

جس سے میں خود بچھڑ گیا،سوچ کے یہ نہ پھر ملا
پہلے ملا تو کیا کیا، مل کے اب اُس سے کیا کروں

صابر ظفر

یہ ترا مرا نہیں سانحہ، لوگ کئی زیرِ عتاب ہیں

یہ ترا مرا نہیں سانحہ، لوگ کئی زیرِ عتاب ہیں
مجھے پیش ہیں کئی سیلِ غم، ترے سامنے بھی چناب ہیں

کہاں ڈھونڈیئے گا گواہوں کو، کہاں کھوجیئے کج کلاہوں کو
رُخِ قاتلاں پہ ابھی تلک، شبِ مہرباں کے نقاب ہیں

میرا منہ چڑا کے سحر گئی، انہی رتجگوں میں گزر گئی
کبھی نیند مجھ سے گریز پا، کبھی خواب پا بہ رکاب ہیں

ابھی مجھ کو تابِ نظر نہ دے، ابھی مجھ کو اذنِ سفر نہ دے
ابھی راستے میں غبار ہیں، ابھی آئینے تہہِ آب ہیں

کہاں جائے عابدِ بے خبر، کہ دعاؤں میں وہ اثر نہیں
نہ گناہوں کو میں بھلا سکا، نہ ہی یاد کارِ ثواب ہیں

تم جب آؤ گی تو ، کھویا ہوا پاؤ گی مجھے

تم جب آؤ گی تو ، کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں ، خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے ، تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک ، لمحہ کوئی اُوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ ، آخری سیٹرھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو


تیری صبحِ عاشقی میں کہیں شام آ نہ جائے
تجھے بے وفا کہوں میں ، وہ مقام آ نہ جائے
وہ جو منزلوں پہ جا کر کسی ہم سفر کو لُوٹیں
اُنہی رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے

رویا تھا اس قدر ، میرے شانے سے لگ کے وہ
ایسا لگا کہ جیسے کبھی بے وفا نہ تھا