بہت ہی دور وادیوں سے یہ صدا آئی
کہ جب تم پیار کرنا، تو کبھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے، یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زِندانوں سے پھر آزاد کر دینا
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے افسوس ہوتا ہے
اسے پھر زندگی میں ہر لمحہ افسوس رہتا ہے
کہ اس نے زندگی کے بے بہا انمول تحفہ کو
فقط اندیشہ و افکار پر قربان کر ڈالا
کہ اس نے چند برسوں کی فقط تکلیف کے بدلے
زندگی بھر کے پچھتاوے کا یہ عذاب کیوں پالا
کہ جو ایسا نہیں کرتا
وہ پھر تنہائی کے وسیع و بے رحم صحرا میں
محبت کی فقط دو چار بوندوں کو ترستا ہے
زندگی کے کسی بھی موڑ سے جب وہ گذرتا ہے
کسی اپنے سے دل کی بات کرنے کو مچلتا ہے
وہ جب بیمار ہوتا ہے
کسی ہمدرد، کسی ہمنوا کو یاد کرتا ہے
وہ پھر یہ سوچا کرتا ہے
کوئی ہو جو مجھے پرہیز کی تاکید کرتا ہو
کوئی ہو جو میری تکلیف میں خود بھی تڑپتا ہو
دوا نہ لوں کبھی جو میں، تو پھر ڈانٹا بھی کرتا ہو
کوئی تو ہو، کوئی تو ہو، جو مجھ سے پیار کرتا ہو
انہی سوچوں سے گھبرا کر وہ پھر خود ہی سے لڑتا ہے
میں اس بے رحم دنیا میں اکیلے جی بھی سکتا ہوں
مقدر میں ہیں جو لکھے، وہ آنسو پی بھی سکتا ہوں
مگر وہ ہار جاتا ہے
اور جب وہ ہار جاتا ہے
تو اس کی آنکھ سے چپکے سے اِک آنسو لڑھکتا ہے
اسے پچھتانا پڑتا ہے
سو جب تم پیار کرنا تو، کبھی انکار کے ڈر سے
کسی کی جیت کے ڈر سے، یا اپنی ہار کے ڈر سے
کبھی بھی دل کی آوازوں کو تم دل میں نہیں رکھنا
انہیں ہونٹوں کے زِندانوں سے بھر آزاد کر دینا
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے افسوس ہوتا ہے
کہ جو ایسا نہیں کرتا، اسے پچھتانا پڑتا ہے