مگر، یہ زندگی کی ہائی وے پہ چلنے والے کب سمجھتے ہیں
غلط ایگزِٹ سے مُڑ جائیں تو منزل چُھوٹ جاتی ہے
مجھے بھی ایک ایگزِٹ پہلے مُڑنے کی اذیّت ہے
مِرے پیشِ نظر بھی ایک اَن دیکھی مسافت ہے
یہاں سے لوٹنا نہ منزل تک پہنچ پانا
مِرے بس میں نہیں شاید
میں پھر بھی جا رہی ہوں ایک اَن دیکھے بیاباں میں
یہاں کوئی پرندہ ہے نہ سایہ ہے نہ پانی ہے
نہ اس میں کوئی ایگزِٹ کی نشانی ہے
مسلسل رائیگانی ہے
یہاں کس کو پکاروں میں
کہ اب اپنی صدا بھی اپنے کانوں میں نہیں آتی
بلا کی سرگرانی ہے
یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں شاید
میں کس سے رَستہ پوچھوں
یہاں تو نَو سو گیارہ کی سہولت بھی نہیں حاصل
میں جس دُنیا کی ہوں، اس کی حکومت بھی نہیں حاصل
بتا قُطبی ستارے! یہ کہاں کی بے ثباتی ہے
نہ مجھ کو چین پڑتا ہے نہ مجھ کو نیند آتی ہے
غلط ایگزِٹ سے مُڑ جائیں، تو منزل چُھوٹ جاتی ہے
ریحانہ قمر