آنکھوں میں جلائے امید کے دِیے رکھناآسا ن تو نہیں
ہجر کا زہر ہر روز ہی پیئے رکھنا آسان تو نہیں
اس سے ملے غم بھی سینے سے لگائے رہنا
وہ کوئی بھی ستم کر لے لب سِیے رکھنا آسان تو نہیں
سفرِ فراق میں اک بھی لمحہ اسے بھو ل نہیں پایا
ہر پل میں اسے یاد کیے رکھنا آسان تو نہیں
یہ بھی معلوم ہے وہ اب لوٹ کر آنے والا نہیں
پھر بھی خود کو حوصلا دیے رکھنا آسان تو نہیں
عشق کس بلا کا نام ہے یہ دیوانے ہی جانتے ہیں
دل دے کر درد دل لیے رکھنا آسان تو نہیں