تباہیوں میں بھی بے خانماں نہ ہونے دیا
مجھے دعا دے تجھے رائیگاں نہ ہونے دیا
کمال یہ نہیں ہم نے کمال گر یہ کیا
کمال یہ ہے زیادہ دھواں نہ ہونے دیا
خلش ہمیشہ رہی ایک آدھ اس دل میں
دکھوں سے خالی کبھی یہ مکاں نہ ہونے دیا
مجھے تھا خوف نشیمن کے پھر اجڑنے کا
صبا کو اس لئے بھی مہرباں نہ ہونے دیا
اک ایسی موج جسے آبشار ہونا تھا
اسے بھی آنکھ سے اک پل رواں نہ ہونے دیا
مُنافقوں کی طرح ہم نے اُس کا ساتھ دیا
وہ بے وفا ہے اُسے یہ گُماں نہ ہونے دیا
خوشی سے کھیل گئے اپنی جان پر عاصم
کسی طرح سے بھی اِس کا زیاں نہ ہونے دیا