آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ کر کے
وقت چھوڑے گا مجھے دوست تمہارا کر کے
بات دریا بھی کبھی رُک کے کیا کرتا تھا
اب تو ہر موج گزرتی ہے کنارہ کر کے
وہ عجب دشمنِ جاں تھا جو مجھے چھوڑ گیا
مرے اندر ہی کہیں مجھ کو صف آرا کر کے
خواب تو خواب، یہاں آنکھ اُجڑ جاتی ہے
حاصلِ جاں! تری فرقت کو گوارا کر کے
اِک دِیا اور جلایا ہے سحر ہونے تک
شب ہجراں ترے نام ایک ستارہ کر کے
اِک کلی شاخ کے اندر ہی کہیں روتی تھی
روزنِ در سے بہاروں کا نظارہ کر کے
جب سے جاگی ہے ترے لمس کی خواہش دل میں
رہنا پڑتا ہے مجھے خود سے کنارہ کر کے
دشت! چھانوں گا تری خاک محبت سے میں
عشق! دیکھوں گا تجھے سارے کا سارا کر کے