بس یہی گلا ہے زندگی سے
ہمیں کیا ملا ہے زندگی سے
غموں کے عادی ہے دکھ کے سائے ہیں
ستم جانے کیا کیا ہم نے کھائے ہیں
اندھری ہی اندھیری ہیں روشنی نہیں ہے
سب کو چاند ملا مجھ کو چاندنی نہیں ہے
سب کے سنگ ساتھی ہے
سب خوشی سے جی رہے ہیں
زہیر یہ جدائی والا
بس ہم ہی پی رہے ہیں
ہر کوئی آس رہا
میری آنکھوں میں ہی پانی ہے
میری بربادیوں کی
یہ جیسے کوئی نشانی ہے