ہر ایک خوابِ سفر آنسوؤں میں ڈھل جائے
میں جس کے ساتھ چلوں راستہ بدل جائے
عجیب رسم ہے دنیا میں آب و دانے کی
لگائے تخم کوئی اور کسی کو پھل جائے
وہ پھول خواب جنہیں دیکھنے میں عمر لگے
ذرا سی دیر کو آئے وہ اور مَسل جائے
عجب گھٹن سی تھی دل میں تو یہ خیال آیا
تھمے جو آج یہ دھڑکن تو جی سنبھل جائے
جو میرے ساتھ ہوا میں ہی جانتا ہوں عدیل
کسی کے ساتھ ہو یہ سب تو دم نکل جائے