نہ خیالِ سود و زیاں رہا، نہ کسی خوشی کی طلب رہی
ترے بعد کوئی سکوں رہا ، نہ ہوائے شہرِ طرب رہی
مری دھڑکنوں میں بسی ہوئی، مرے خُون میں ہے گُھلی ہوئی
وہ ترے جمال کی تازگی جو مرے جنوں کے سبب رہی
مرے بعد گزری ہے اُس پہ کیا، مجھے اُس کی کوئی خبر نہیں
وہ اُجالتی رہی زندگی کہ اسیرِ حلقۂ شب رہی
وہ نہیں ہے تو نہیں خود سے بھی کوئی رابطہ کوئی سلسلہ
وہی روزوشب مرے بس میں تھے،مری دسترس میں وہ جب رہی
تُو رہا کسی کی تلاش میں، میں تری تلاش میں گُم رہا
تری جستجو بھی عجیب تھی، مری جستجو بھی عجب رہی
شمشیر حیدر