منظر میں کہاں جچتی ہے تصویر ہماری
ہم خواب ہیں اور الٹی ہے تعبیر ہماری
دریاؤں سے کچھ ربط ہوا اِتنا زیادہ
پانی پہ لکھی لگتی ہے تقدیر ہماری
مسمار کیے جاتے ہیں معمار ہی ہم کو
کب جانے مکمل کریں تعمیر ہماری
اے وقت! اِسے اپنی کسی موج پہ لکھ لے
مٹ جائے کہیں ہم سے نہ تحریر ہماری
ہم ذات میں اپنی کسی صحرا کی طرح ہیں
ہو پائے گی تم سے کہاں تسخیر ہماری
ڈوبیں گے کبھی وقت کے دریا میں جو اشرف
در آئے گی لہروں میں بھی تاثیر ہماری
اشرف نقوی