لب و رخسار و جبیں سے ملیے
جی نہیں بھرتا کہیں سے ملیے
یوں نہ اُس دل کے مکیں سے ملیے
آسماں بن کے زمیں سے ملیے
گھُٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تک
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے
کیوں حرم میں یہ خیال آتا ہے؟
اب کسی دشمنِ دیں سے ملیے
جی نہ بہلے رَمِ آہو سے تو پھر
طائرِ سدرہ نشیں سے ملیے
بجھ گیا دل تو خرابی ہوئی
پھر کسی شعلہ جبیں سے ملیے
وہ حاکمِ دوراں تو نہیں !
مت ڈریں اُن کی "نہیں" سے ملیے