یاد کو ان کی بھولنا چاہا، یاد مگر وہ آئے بہت
ان کو دیس میں چھوڑ تو آئے لیکن ہم پچھتائے بہت
جب بھی دیکھے محفل محفل، ہنستے بستے خوش خوش چہرے
آج نہیں کچھ لوگ جو ہم میں، یاد ہمیں وہ آئے بہت
چڑھتے سورج کی وہ پجاری ساتھ تھی خلقت ان کے ساری
دن ڈھالنے کا وقت جو آیا، دوست تھے کم اور سائے بہت
علم و ہنر کی بات کبھی جو نکلی اس محفل میں یارو
دیکھا ہم نے اپنی جانب، دیکھ کے ہم شرمائے بہت
خواہش اپنی ظاہر اس پر کیوں کرتے ہو یار عدیل
جس کے دین کا ہے یہ طریقہ، دے تو کم ترسائے بہت
عدیل زیدی