کوئی تعبیر کا منظر نہ دکھایا جائے
ہم کو سہمے ہوئے خوابوں سے ڈرایا جائے
کتنی بے نور ہیں زنداں کی یہ بوجھل شامیں
ان میں یادوں کا کوئی دیپ جلایا جائے
طالبِ دید ہیں جلوے مری زیبائی کے
جانبِ طور جو موسیٰ کو بلایا جائے
آج ہم ہار کے آئے ہیں تمنا تیری
آج پھر روٹھے خداؤں کو منایا جائے
ہم نے مانا کہ انہیں موت کا صدمہ ہو گا
اس بہانے سے انہیں گھر تو بلایا جائے
جس جگہ ٹھہروں تیرے پیار کی خوشبو گھیرے
جس طرف جاؤں تیری یاد کا سایا جائے
شازیہ اکبر