دے شب کی طرح چاند ستارے وہ مجھے بھی
پھر لاکھ اندھیروں سے گذارے وہ مجھے بھی
منہ زور تھپیڑا ہوں میں، کر دے گا وہ پابند
جھیلوں کی طرح دے گا کنارے وہ مجھے بھی
بے ہوش ہے جس روز سے لیتا ہے ترا نام
میں باپ ہوں اک بار پکارے وہ مجھے بھی
کر دے نہ کہیں تند سمندر کے حوالے
ٹوٹی ہوئی کشتی کے سہارے وہ مجھے بھی
زر مجھ کوسمجھتا ہے تو پھر سوچتا کیا ہے
داؤ پہ لگا دے،کبھی ہارے وہ مجھے بھی
جو پاس ہے اس کے، وہی تقسیم کرے گا
شعلہ ہے تو پھر دے گا شرارے وہ مجھے بھی
تنہائی کی سُولی پہ معلّق ہوں میں خاور
اس شاخِ برہنہ سے اُتارے وہ مجھے بھی
خاقان خاور