سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گذر گئے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سُو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رَستہ رَستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اِک اِک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اِک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبُور بہت، رُوح بھی چُور و چُور بہت
پیشانی بے نُور بہت، اور لمحے مغرُور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تُو بھی ہم سے دُور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں بہلانے کے ڈھنگ بہت