وہ میری ذات میں رہ کر بھی میرا ہو نہ سکا
اندھیری شب کے نگر میں اجالا ہو نہ سکا
خیال اسی کا اسی کی لگن اسی کی سوچ
وہ میرا ساتھ نبھاتا مگر ایسا ہو نہ سکا
میں تتلیوں کے تعاقب میں دور جا نکلی
بیان مجھ سے کسی کا سراپا ہو نہ سکا
میں اس کے دیس سے ہوں دور بہت
شکار وہ میرے تیر نظر کا ہو نہ سکا
میری آس میری امید نے دم توڑ ہی دیا آخر
مجھے خود اپنے ہی دل پر بھروسہ ہو نہ سکا
میں آئینے سے نکلتے ہی ہو گئ پتھر!!!
کہ مجھ سے معاملہ اس بے وفا کا ہو نہ سکا