ہر ایک کھیت میں اُجلی کپاس ہوتے ہُوئے
تمام شہر ہے عریاں، لباس ہوتے ہُوئے
یہ مُجھ میں کتنے زمانوں کی یخ ہَوائیں ہیں
میں اب بھی سرد ہوں سُورج کے پاس ہوتے ہُوئے
عجیب شخص ہے دریا میں ہاتھ ڈالا اور
وہیں سے لوٹ گیا اِتنی پیاس ہوتے ہُوئے
غُبارِ راہ چھٹا، تو وہ سامنے آیا
میں کِھل اُٹھا ہوں اچانک اُداس ہوتے ہُوئے
میں آ گیا ہوں سڑک پر لہو کی ڈھال لئے
تمام شہر میں خوف و ہراس ہوتے ہُوئے
مجھے یقین نہیں ہے یہ کیسے مُمکن ہے
وہ اتنا دور ہوا، اِتنا پاس ہوتے ہُوئے