Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Tuesday, December 27, 2011

نیند سے باہر گِرا خواب

ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک خواب جلتا ہے
کہیں آنسو چمکتے ہیں
کہیں مہتاب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں سورج نکلتا ہے
کہیں کالی کلوٹی رات پھرتی ہے
کہیں چھپ کر کوئی دِیپک
پسِ محراب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں اُجلے پرندے ہیں
کہیں خونی درندے ہیں
کہیں یادوں کا جنگل ہے
کہیں صحرا، کہیں جَل ہے
کہیں برفاب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں بادل برستے ہیں
کہیں نیناں ترستے ہیں
کہیں دل کے سمندر میں
کوئی بے آب جلتا ہے
ہماری نیند سے باہر
کہیں دو پھول کِھلتے ہیں
کہیں ہم روز ملتے ہیں
کہیں سب زخم سِلتے ہیں
ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک بام روشن ہے
کہیں اِک باب جلتا ہے
کہیں پنہاں، کہیں ظاہر
ہماری نیند سے باہر
کہیں اِک خواب جلتا ہے

نصیر احمد ناصر