نیلا میرا وجود گھڑی بھر میں کرگیا
وہ زہر کی طرح مرے دل میں اتر گیا
پلکیں لرز کے رہ گئیں اور دیپ بجھہ گئے
الزام اب کے بار بھی آندھی کے سر گیا
اب کس لئے سنبھال کے رکھوں بصارتیں
آنکھوں سے خواب چھین کے جب چارہ گر گیا
اس سے بچھڑ کے دل کا ہوا ہے عجیب حال
پانے کی آرزو گئی، کھونے کا ڈر گیا
جب موسموں نے پھر سے بغاوت کی ٹھان لی
ٹہنی پہ پھول کھلنے سے پہلے بکھر گیا
بہتر ہے خود رفو گری سیکھوں کہ آج تو
گھاؤ کھلے ہی چھوڑ کے وہ چارہ گر گیا
اس پر یقیں بحال ہوا تو وہ ایک دم
اقرار کے مقام پہ آ کر مکر گیا
آنکھوں سے نیند، دل سے سکوں ہوگیا جدا
لگتا ہے اپنے ساتھ کوئی ہاتھہ کرگیا
سورج نے ساتھہ چھوڑا تو دیکھا پلٹ کے تب
سوچا، جو ساتھہ چلتا تھا سایہ کدھر گیا