وہی ہے درد کا عالم اُسے بُھلا کر بھی
مِرے قریب ہی نِکلا وہ دُور جاکر بھی
الگ الگ سہی دُنیا کا اور دوست کا غم
کبھی یُونہی ذرا دیکھو انھیں مِلا کر بھی
عجیب قحط پڑا اَب کے سال اشکوں کا
کہ آنکھ تر نہ ہُوئی خُون میں نہا کر بھی
زمیں کا سانس رُکا ہے ترے اشارے پر
کبھی تو دیکھ اِدھر اِک نظر اُٹھا کر بھی
ہر ایک قید کی کوئی اخیر ہے امجد
نفس کو خاک کے جادُو سے اَب رِہا، کر بھی