دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں
شہر کے سارے لوگ رُلانے آتے ہیں
دل کی کلیاں تیرے نام پہ کھِلتی ہیں
تارے بھی اب مانگ سجانے آتے ہیں
تُم پر خوشیوں کے سارے ہی موسم اُتریں
ہم کو سارے دُکھ بہلانے آتے ہیں
جانے کیا دیکھا تھا تیری آنکھوں میں
جانے کیوں اب خواب سہانے آتے ہیں
مَن مندر میں رکھ کر تیری مورت کو
ہم پوجا کا دیپ جلانے آتے ہیں
شازیہ اکبر