نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے۔
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے۔
حسین تیری آنکھیں حسین تیرے آنسو۔
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔
کچھ سننے سنانے کو جی چاہتا ہے۔
کچھ لمحے بیتانے کو جی چاہتا ہے۔
تھا کسی کے منانے کا انداز ہی ایسا کہ۔
روز روٹھ جانے کو جی چاہتا ہے۔