نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
جو شخص ساتھ نہیں اُس کا عکس باقی ہے
اُٹھا کے لے گئے دزدانِ شب چراغ تلک
سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے
گھٹا اُٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے
اُلٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
مگر خرابہِ دل میں وہ شخص باقی ہے
فراز آئے ہو تم اب رفیقِ شب کو لیے
کہ دور جام نہ ہنگامِ رقص باقی ہے