اُس شام کو وہ کچھ اُلجھی سی تھی
اُس کی باتوں میں کچھ تلخی سی تھی
جیسے کالی گھٹائیں چھائی ہوں ہر سُو
اس کی زلفیں کچھ ایسے بکھری سی تھیں
سنوارنا جو چاہا میں نے ان بکھری زلفوں کو
اُس کی آنکھوں میں دِکھتی کچھ نمی سی تھی
لِپٹ کر مجھ سے اس قدر روئی تھی وہ
اُسکی زندگی میں جیسےمیری کمی سی تھی
فاخر راز