کوئی اور ہے، نہیں تُو نہیں، مرے روبرُو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر، یہ لگا کہ تُو کوئی اور ہے
یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمُو کوئی اور ہے
جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خُو کوئی اور ہے
کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا مے کدہ کہیں اور ہے، مرا ہم سبُو کوئی اور ہے
ناصر کاظمی