دشمنی بھی ہو تو اک معیار ہونا چاہیے
یاد رکھو! سینے پر ہر وار ہونا چاہیے
دھوپ بونے والا بھی یہ چاہتا ہے دیکھیے
اس کے سر پر پیڑ سایہ دار ہونا چاہیے
یا جنونِ زندگی ہو یا تو شوقِ مرگ ہو
آدمی کو کوئی تو آزار ہونا چاہیے
پیچ و خم میں رہروی کا لطف پنہاں ہوتا ہے
راستوں کو مثلِ زلفِ یار ہونا چاہیے
کتنے یوسف اب بھی ہیں تیار بکنے کے لیے
شرط یہ ہے مصر کا بازار ہونا چاہیے
دیکھ اپنے دل کے دروازے کا تالا کھول دے
خالی کمرے میں کرایہ دار ہونا چاہیے
ایک ٹوٹے دوسرے کی آس باقی رہ سکے
آنکھوں میں تو خوابوں کا انبار ہونا چاہیے
ساقی کی من مانیوں پر نقطہ چینی جو کرے
مے کدے میں ایسا اک مے خوار ہونا چاہیے