تیری ابتدا کوئی اور ہے
تیری انتہا کوئی اور ہے
تیری بات ہم سے ہوئی تو کیا
تیری سوچ میں کوئی اور ہے
مجھے شوق تھا بڑی دیر تک
تیرا شریکے سفر رہوں مگر
تیرے ساتھ چل کر خبر ہوئی
تیرا راستہ کوئی اور ہے
تجھے فکر ہے کہ مجھے بدل دیا
گردش اور حالت نے ساگر
کبھی خود سے بھی تو سوال کر
تو وہی ہے یا کوئی اور ہے