جو ماں کی تربیّت کے تھے وہ جوہر سامنے آئے
مرا جب امتحان لینے گلِ تر سامنے آئے
مجھے کم حوصلہ یاروں کی یاری زہر لگتی ہے
تو جس دل میں عداوت ہو وہ کُھل کر سامنے آئے
نہ کرتی جاں کا سودا تو غریبی اور کیا کرتی
نہ مندر نے اُسے پوچھا نہ منبر سامنے آئے
جو بویا تھا وہی کاٹا تو پھر اس میں تعجّب کیا
کسی سے کچھ نہ کہنا کیسے منظر سامنے آئے
مری تنہائی پر اُن کو بھی شک ہونے لگا شائد
عدُو بھی میرے پیچھے سے گزر کر سامنے آئے
مہتاب قدر