مسافر ہوں
تِرے شہرِ محبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا
چلا جاؤں گا اپنے راستے پر
زندگی کی رات ڈھلنے دے، بدن کو مات ہونے دے
رُکی ہے جو لبوں پر بات، ہونے دے
تِرا شہرِ محبت خوب ہے، لیکن اسیری کا بہانہ ہے
ازل کی اولیں ساعت، ابد کا آخری لمحہ
یہیں پر مرتکز سارا زمانہ ہے
مگر مجھ کو
فصیلِ وقت کے ٹھہرے ہوئے اس دائرے کو پار کرنا ہے
ابد کی سرحدوں سے دُور آگے
لاجوردی روشنی سے پیار کرنا ہے
تِرا شہرِ محبت تو مِرا پہلا پڑاؤ ہے
جسے تُو آخری منزل سمجھتی ہے
دلوں کے راستوں پر وہ فقط اِک نیم روشن سا الاؤ ہے
بڑی لمبی مسافت ہے، بڑا گہرا یہ گھاؤ ہے
ابد کے اس طرف بھی راستے ہی راستے ہیں
فاصلوں کا ایک نادیدہ بہاؤ ہے
جسے میں دیکھ سکتا ہوں
جسے میں چُھو بھی سکتا ہوں
مگر میں تو مسافر ہوں
تِرے شہرِ محبت میں ذرا سی دیر ٹھہروں گا
نصیر احمد ناصر