ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تیری بزم سے اُٹھنا
محسُوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنّا کے لیے عمر پڑی ہے
کچھ دیر کسی زُلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابل غمِ دوراں کی ابھی دُھوپ کڑی ہے
قابل اجمیری