قرار کھو کے، دلِ بے قرار باقی ہے
جو زخم کھائے ہیں اُن کا شمار باقی ہے
عبور کر چکی دشتِ جنوں بھی میں لیکن
ہنوز سامنے اِک ریگزار باقی ہے
سنا کے داستاں غم کی بھی لفظ لفظ مگر
میں کیا کروں، وہی دل کا غبار باقی ہے
دکھوں کی لہر اور سیلِ غم میں بہہ کر بھی
یہ سخت جان، دلِ خونبار باقی ہے
غموں کی آگ میں جل کر میں بن گئی کندن
جبھی تو چہرے پہ اب تک، نکھار باقی ہے
وہ میٹھے بول جو رَس گھولتے تھے کانوں میں
زمانے بعد بھی اُن کا خمار باقی ہے
خزاں رسیدہ ذہن تھک گیا ہے اب، لیکن
یہ دل ہے، جس میں اُمیدِ بہار باقی ہے