یہ ترا مرا نہیں سانحہ، لوگ کئی زیرِ عتاب ہیں
مجھے پیش ہیں کئی سیلِ غم، ترے سامنے بھی چناب ہیں
کہاں ڈھونڈیئے گا گواہوں کو، کہاں کھوجیئے کج کلاہوں کو
رُخِ قاتلاں پہ ابھی تلک، شبِ مہرباں کے نقاب ہیں
میرا منہ چڑا کے سحر گئی، انہی رتجگوں میں گزر گئی
کبھی نیند مجھ سے گریز پا، کبھی خواب پا بہ رکاب ہیں
ابھی مجھ کو تابِ نظر نہ دے، ابھی مجھ کو اذنِ سفر نہ دے
ابھی راستے میں غبار ہیں، ابھی آئینے تہہِ آب ہیں
کہاں جائے عابدِ بے خبر، کہ دعاؤں میں وہ اثر نہیں
نہ گناہوں کو میں بھلا سکا، نہ ہی یاد کارِ ثواب ہیں