اُداسیوں کے یہ زرد موسم
فضا میں بکھری پُرانی یادیں
اُجاڑ پیڑوں پہ تنکا تنکا
بکھرتے چڑیوں کے آشیا نے
زمیں پہ رکھے ہوئے کٹورے سے پانی پیتے وہ دو کبوتر
نمی کی لرزش سے جِھلملا تے سیاہ آنکھوں میں قید منظر
اُفق پہ چھا ئی شفق کی لالی
پھر آج آنکھوں میں بھر رہی ہے
یہ فُرقتوں سے نڈھال برکھا
مِرے لہو میں اُتر رہی ہے
احتشام علی