میں گریز کیا کرتا،اُس کے ساتھ چلنے سے
زخم تو نہیں بھرتا، راستہ بدلنے سے
عشرتِ شبانہ تو، یار کی رضا سے ہے
یہ خوشی نہیں ملتی،صرف شام ڈھلنے سے
آرزو کی چنگاری،کب تلک سُلگ سکتی
بجھ گیا ہے دل آخر، بار بار جلنے سے
زندگی کا ہر مہرہ، بے رُخی کے رُخ پر ہے
یہ بساط الٹے گی، ایک چال چلنے سے
ڈوبتا ہوا سورج، کیا مجھے اُجالے گا
میں چمک اٹھوں شاید، چاند کے نکلنے سے