نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے
مگر وہ ہے کہ مسلسل دیے جلاتا ہے
کبھی سفر کبھی رختِ سفر گنواتا ہے
پھر اُس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے
یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے
یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے
وہ کون تھا میں جسے راستے میں چھوڑ آیا
“ یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ آتا ہے“
وہی تسلسلِ اوقات توڑ دے گا کہ جو
درِ اُفق پہ شب و روز کو ملاتا ہے
جو آسمان سے راتیں اُتارتا ہے سلیم
وہی زمیں سے کبھی آفتاب اُٹھاتا ہے
سلیم کوثر