Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Saturday, December 10, 2011

چلیں ہم فرض کرتے ہیں یہ سب کچھ اک کہانی ہے


یہ کیسا کھیل ہے تقدیر کی بے نام بازی کا
کہ جو ہارے سوہارے ہیں
مگر جو جیت جاتے ہیں
انھیں بھی اک نئی الجھن کی دلدل گھیر لیتی ہے
کہ اک مشکل کے بعد اک اور مشکل گھیر لیتی ہے
سمجھنے کے لیے آئیں
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
*“ کسی لمحے کسی شخص کو پانا ہماری زندگی سے بھی زیادہ بیش قیمت تھا
ہم اس آرزو میں ساری دنیا بھول بیٹھے تھے
اسی کی دھن میں جیتے تھے اسی کے غم میں*مرتے تھے
تو پھر کچھ یوں ہوا اک روز اس کو پالیا ہم نے
اسے رنگوں کی ڈولی میں بٹھا کر گھر میں لے آئے
تصور کی ہر اک خوشبو گل منظر میں لے آئے
کہانی آگے چلتی ہے
تو ہوتا اس طرح ہے زندگی کے کارخانے میں
دنوں کے آنے جانے میں
جہاں کے ان گنت کاموں کا چکر چلنے لگتا ہے
بدن تھکتا ہے
آنکھیں دیر تک بیدار رہنے سے سلگتی ہیں
زباں اک تاجرانہ اور مسلسل جھوٹ
کی تکرار سے اکتانے لگتی ہے
مگر مجبور ہوتی ہے
کہ دنیا کا دباؤ اس کو رکنے نہیں دیتا
کوئی بے کار سا قصہ وہ پھر سے دوہرانے لگتی ہے
تھکن اور نیند کی ملتی حدوں میں، سرد بستر پر
سحر سے رات تک کی بے نتیجہ گفتگو
یاد آنے لگتی ہے
تو اس لمحے
وہ عمروں کی ریاضیت کا ثمر، وہ گوہر یکتا
اسی شکنوں بھرے بستر کے اک حصے میں ہوتا ہے
مگر محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے وہ ہزاروں میل کی دوری پہ رہتا ہے
اسی دوری کے صحرا میں کئی راتیں بکھرتی ہیں
کئی دن فوت ہوتے ہیں
تو پھر اک دن
کسی بے نام سی آہٹ کی
ہمارے ہست کی خالی گلی میں گونجتی ہے
اور ہمیں بیدار کرتی ہے ، بتاتی ہے
کہ ہم جس گھر میں رہتے ہیں
وہاں کچھ خوبصورت خواب بھی آباد ہوتے تھے
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
یہ سب کچھ اک کہانی ہے
مگر کتنی پرانی ہے