گُلوں کو سننا ذرا تم، صدائیں بھیجی ہیں
گُلوں کے ہاتھ بہت سی دُعائیں بھیجی ہیں
جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
وہ دِل ہے میرا، اُسی کی شعاعیں بھیجی ہیں
تمہاری خشک سی آنکھیں، بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری یادیں جو تم کو رُلائیں، بھیجی ہیں
سیاہ رنگ، چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں
تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو، ہم نے خطائیں بھیجی ہیں
اکیلا پتہ، ہوا میں بہت بلند اُڑا
زمیں سے پاؤں اُٹھاؤ، ہوائیں بھیجی ہیں
گُلزار